پاکستان میں پاور پلانٹس کا آئی پی پی کا معاہدہ
پاکستان میں انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPP) کا معاہدہ، جسے آئی پی پی معاہدہ کہا جاتا ہے، وہ معاہدہ ہوتا ہے جو حکومت پاکستان یا اس کے کسی سرکاری ادارے اور نجی پاور پروڈیوسرز کے درمیان بجلی کی پیداوار اور فروخت کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔
یہ معاہدے عمومی طور پر درج ذیل عناصر پر مشتمل ہوتے ہیں:
1. **بجلی کی پیداوار**: آئی پی پی کمپنی کو بجلی پیدا کرنے کے لیے ایک پاور پلانٹ لگانا اور اس کو چلانا ہوتا ہے۔
2. **بجلی کی فروخت**: پیدا کی گئی بجلی کو حکومت یا کسی سرکاری ادارے (جیسے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی – NTDC) کو فروخت کیا جاتا ہے۔
3. **قیمت کا تعین**: معاہدے میں بجلی کی قیمت طے کی جاتی ہے جو حکومت آئی پی پی سے خریدے گی۔ یہ قیمت عموماً لمبے عرصے کے لیے مقرر کی جاتی ہے تاکہ سرمایہ کاری کے لیے آئی پی پی کو استحکام فراہم کیا جا سکے۔
4. **پاور پرچیز ایگریمنٹ (PPA)**: یہ معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت بجلی خریدنے اور بیچنے کی شرائط و ضوابط طے کیے جاتے ہیں۔
5. **دورانیہ**: معاہدے کا دورانیہ عمومی طور پر 20 سے 30 سال ہوتا ہے، جس کے دوران آئی پی پی کو بجلی پیدا کرنے اور حکومت کو فروخت کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
6. **فنانسنگ اور سرمایہ کاری**: آئی پی پی کمپنی سرمایہ کاری کرتی ہے اور پاور پلانٹ کی تعمیر و آپریشن کے اخراجات برداشت کرتی ہے۔
7. **رسک مینجمنٹ**: معاہدے میں مختلف رسک فیکٹرز (مثلاً: قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، ڈیمانڈ میں تبدیلی، تکنیکی مسائل) کے حوالے سے شرائط بھی شامل ہوتی ہیں تاکہ دونوں پارٹیز کی حفاظت ہو سکے۔
پاکستان میں آئی پی پی معاہدوں کے تحت کئی پاور پلانٹس لگائے گئے ہیں، جو ملک میں بجلی کی فراہمی کے لیے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
کس نے یہ معاہدہ کیا تھا اور اسکے کیا پاکستان کو نتائج بھگتنے پڑ رہے ہیں؟
پاکستان میں انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPP) کے معاہدے 1990 کی دہائی کے اوائل میں کیے گئے تھے۔ یہ معاہدے اُس وقت کی حکومت پاکستان، خصوصاً پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) کے دورِ حکومت میں کیے گئے تھے۔ اس وقت کے وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے نجی پاور پروڈیوسرز کو ملک میں بجلی پیدا کرنے کی دعوت دی تھی۔
معاہدے کے نتائج اور مسائل:
1. **قیمتیں**: ابتدائی معاہدے زیادہ فائدہ مند شرائط پر کیے گئے، جس کے نتیجے میں بجلی کی قیمتیں بہت زیادہ مقرر ہوئیں۔ یہ قیمتیں وقت کے ساتھ صارفین اور حکومت دونوں کے لیے بھاری پڑنے لگیں۔
2. **سرکلر ڈیٹ**: ان معاہدوں کی وجہ سے سرکلر ڈیٹ (چکرائی ہوئی قرض) کی ایک بڑی مقدار جمع ہو گئی۔ حکومت کو IPPs کو ادا کرنے کے لیے قرض لینا پڑا، جس نے معیشت پر منفی اثرات ڈالے۔
3. **کیپیسٹی پیمنٹس**: IPPs کو کیپیسٹی پیمنٹس ادا کی جاتی ہیں، جو اس بات کی ضمانت دیتی ہیں کہ اگر حکومت بجلی نہ بھی خریدے تو بھی پاور پلانٹس کو ایک مخصوص رقم ملتی رہے گی۔ یہ شرط مالی بوجھ کا باعث بنی۔
4. **بدعنوانی کے الزامات**: بعض معاہدوں میں بدعنوانی اور غلط فائدہ اٹھانے کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں، جس نے حکومت کی شفافیت اور ساکھ پر سوال اٹھائے۔
5. **توانائی کی فراہمی میں استحکام**: مثبت پہلو یہ ہے کہ ان معاہدوں کی وجہ سے ملک میں بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا اور توانائی کی فراہمی میں کچھ حد تک استحکام آیا۔
6. **معاہدوں کی نظرثانی**: موجودہ حکومتوں نے کوشش کی ہے کہ ان معاہدوں کی شرائط پر نظرثانی کی جائے تاکہ عوامی مفاد میں بجلی کی قیمتوں کو کم کیا جا سکے اور سرکلر ڈیٹ کے مسئلے کو حل کیا جا سکے۔
یہ معاہدے ملک میں بجلی کی فراہمی کے لیے تو اہم ثابت ہوئے، مگر ان کے مالیاتی اور معاشی اثرات نے حکومت کے لیے کئی مشکلات پیدا کیں۔ حکومت کو آج بھی ان معاہدوں کے مالیاتی بوجھ کا سامنا ہے۔
ان معاہدوں کی وجہ سے قرض کیسے چڑھ گیا؟
انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPP) کے معاہدوں کی وجہ سے قرض بڑھنے کی کئی وجوہات ہیں:
1. کیپیسٹی پیمنٹس
کیپیسٹی پیمنٹس وہ ادائیگیاں ہیں جو حکومت IPPs کو اس بات کی ضمانت کے طور پر کرتی ہے کہ اگرچہ وہ بجلی استعمال نہ بھی کرے، پھر بھی IPPs کو ایک مخصوص رقم ملتی رہے گی۔ یہ پیمنٹس پاور پلانٹس کی موجودگی اور تیار حالت میں رہنے کی قیمت ہیں۔ اگر حکومت کی بجلی کی طلب کم ہو یا مالی مشکلات ہوں، پھر بھی ان پیمنٹس کو ادا کرنا پڑتا ہے، جو مالی بوجھ کا باعث بنتا ہے۔
2. بجلی کی قیمتیں
ان معاہدوں کے تحت بجلی کی قیمتیں زیادہ مقرر کی گئیں۔ حکومت کو IPPs سے مہنگی بجلی خریدنی پڑتی ہے، جسے صارفین تک منتقل کرتے ہوئے مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر صارفین یہ زیادہ قیمت ادا نہ کریں تو حکومت کو سبسڈی دینی پڑتی ہے، جو قرضے کی صورت میں پوری کی جاتی ہے۔
3. سرکلر ڈیٹ
سرکلر ڈیٹ ایک ایسا چکرائی ہوئی قرض ہے جو توانائی کے شعبے میں ہوتا ہے۔ جب حکومت IPPs کو بروقت ادائیگیاں نہیں کر پاتی، تو IPPs مالی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں اور وہ اپنے سپلائرز اور مالیاتی اداروں کو ادائیگی نہیں کر پاتے۔ اس سے پورے توانائی کے شعبے میں ادائیگیوں کا ایک چکر شروع ہو جاتا ہے جو مختلف اداروں کو متاثر کرتا ہے۔
4. ادائیگیوں میں تاخیر
جب حکومت بروقت ادائیگیاں نہیں کر پاتی، تو IPPs اپنے آپریشنز چلانے کے لیے بینکوں سے قرض لیتے ہیں۔ یہ قرضے سود کے ساتھ ہوتے ہیں، جس کا بوجھ بالآخر حکومت کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
5. مالی خسارہ
حکومت کو بجلی کی خریداری کے لیے مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے حکومت کو بیرونی قرضے لینے پڑتے ہیں۔ یہ قرضے وقت کے ساتھ بڑھتے جاتے ہیں اور ملک کی معیشت پر بوجھ بن جاتے ہیں۔
6. آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرض
ان مالی مشکلات کی وجہ سے حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں (جیسے آئی ایم ایف) سے قرض لینا پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں مزید قرضہ چڑھ جاتا ہے اور معاشی مشکلات بڑھتی جاتی ہیں۔
7. معاہدوں کی شرائط
کچھ معاہدوں میں غیر منصفانہ شرائط شامل تھیں جو IPPs کو فائدہ دیتی تھیں اور حکومت کو زیادہ ادائیگیاں کرنی پڑتی تھیں۔ ان معاہدوں کی وجہ سے حکومت پر مالی بوجھ بڑھا۔
یہ تمام عوامل مل کر حکومت پاکستان کے لیے مالی مشکلات اور قرضے کا بوجھ بن گئے۔ سرکلر ڈیٹ، کیپیسٹی پیمنٹس، اور مہنگی بجلی کی قیمتوں نے مل کر ایک مشکل صورتحال پیدا کر دی ہے، جسے حکومت کو حل کرنے کے لیے مسلسل مالیاتی منصوبہ بندی اور معاہدوں کی نظرثانی کی ضرورت ہے۔